14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 20
منزل عشق قسط 20
وانیا کے جاتے ہی ہانیہ نے اپنے پاس چھپائی پسٹل نکالی اور باہر موجود پہرے داروں کو دیکھا جو ضرور ہانیہ کو وانیا سمجھ کر ہلکے میں لے جاتے۔اسی سوچ کے ساتھ ہانیہ باہر نکلی اور ایک آدمی کے سر پر بہت زور سے پسٹل کی بیک ماری۔
دوسرے آدمی نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا انس وہاں آ کر اسکی ٹانگ پر بہت زور سے پیر مار کر اسے گرایا اور ہانیہ کے ہاتھ سے پسٹل کے کر اسکے سر میں ماری جس سے وہ بھی بے ہوش ہو گیا۔
"انس وانیا کہاں اور آپ یہاں کیوں آئے؟"
ہانیہ نے معاملہ پلین کے برعکس جاتے دیکھ کر پوچھا۔
"ہانیہ ان لوگوں پر آرمی نے اٹیک کیا ہے شائید۔۔۔۔ابھی چلنا ہو گا ورنہ تم پر خطرہ بڑھ سکتا ہے۔"
ہانیہ نے اسکی بات سمجھ کر ہاں میں سر ہلایا۔انس ہانیہ کو لینے کر واپس اس غار کے پاس آیا لیکن وہاں وانیا کو نہ پا کر وہ دونوں بہت زیادہ پریشان ہوئے تھے۔
"یہیں چھوڑا تھا اسے کہاں چلی گئی وہ؟"
انس نے بے چینی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔ہانیہ بھی پریشانی سے ادھر دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر غار سے تھوڑی دور موجود وانیا پر پڑی۔
"انس وہاں...!!!"
ہانیہ نے اس کی طرف اشارہ کیا اور بھاگ وانیا کے پاس گئی جو راگا کے زخم پر دباؤ ڈالتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
"وانی۔۔۔۔"
"ہہہ۔۔۔۔ہانی دیکھو مم۔۔۔۔میں نے کیا کر دیا۔۔۔یہ کیا کر دیا میں نے۔۔۔"
وانیا بہت زیادہ رو رہی تھی اور خون کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ہانیہ حیرت سے اپنی بہن کو دیکھنے لگی۔انس نے اپنا ہاتھ راگا کی گردن پر رکھا جہاں زندگی کی نشانی اب بند ہو چکی تھی۔
"یہ مر چکا ہے۔۔۔"
انس نے ہانیہ کو بتایا جبکہ اس بات پر وانیا مسلسل انکار میں سر ہلا رہی تھی۔
"نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔"
ہانیہ نے کھینچ کر وانیا کو خود سے لگایا۔
"نہیں وانی اب وہ زندہ نہیں۔۔۔"
ہانیہ نے افسوس سے کہا اور وانیا اسکے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"میں نے مار دیا انہیں ہانی۔۔۔۔قاتل ہوں میں۔۔۔"
وانیا روتے ہوئے کہہ رہی تھی جبکہ ہاتھ راگا کے خون سے سنے ہوئے تھے۔
"ہمیں چلنا ہو گا ہانیہ اس سے پہلے کہ اس کے ساتھی یہاں آ جائیں۔۔۔"
انس کی بات پر ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا اور وانیا کو خود کے ساتھ لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"نہیں مم۔۔۔میں انہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔۔۔ہم انہیں ہاسپٹل لے جائیں گے وہ ٹھیک۔۔۔"
"وانی ہوش کرو وہ مر چکا ہے۔۔۔۔"
ہانیہ نے سختی سے کہا اور اسے زبردستی اپنے ساتھ وہاں سے لے جانے لگی۔انس نے بھی اس فوجی کو سہارا دیا اور اپنے ساتھ لے آیا۔تھوڑی دور پہنچتے ہی انہیں آرمی یونیفارم میں ملبوس ایک سپاہی ملا جس نے پہلے تو ان پر بندوق تانی لیکن پھر ان کو پہچانتے ہی انہیں اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
وہ انہیں سڑک پر لے آیا جہاں بہت سی آرمی کی گاڑیاں اور فوجی موجود تھے۔
"بابا۔۔۔۔"
وجدان پر نظر پڑتے ہی ہانیہ نے پکارا تو وجدان پہلے تو حیرت سے پلٹا پھر اپنی دونوں بیٹیوں کو وہاں دیکھ کر بھاگ کر انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔
"بابا کی جان۔۔۔"
وجدان کی آواز محبت کی شدت سے نم ہو چکی تھی۔ اتنے عرصے بعد باپ کا سائباں ملنے پر ہانیہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی جبکہ وانیا تو یوں تھا جیسے پتھر کی ہوچکی تھی۔
"ہانیہ بیٹا تم وانیہ کو لے کر گاڑی میں جاؤ اور انس میری بیٹیوں کو باحفاظت گھر پہنچانے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔"
انس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر اثبات میں سر ہلایا۔
"اور بابا آپ؟"
"میں بھی جلدی گھر آ جاؤں گا انشاءاللہ تم بس وانیا کو یہاں سے لے کر جاؤ۔۔۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ان کے گاڑی میں بیٹھتے ہی انس ڈرائیور کے ساتھ انہیں وہاں سے لے کر جا چکا تھا۔
کہنے کو تو وانیا آج آزاد ہو گئی تھی لیکن آزادی حاصل کرتے کرتے وہ لڑکی اپنا سب کچھ ہار چکی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
تین کالی گاڑیاں کالج کے باہر رکی تھیں اور ان گاڑیوں میں سے بندوقیں تھامے گارڈز باہر آئے۔ہر کوئی حیرت سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
تبھی گاڑی کا دروازہ کھول کر گاڑھے نیلے پینٹ کوٹ میں ملبوس سالار ملک گاڑی سے بے نکلا اور شان سے چلتا ہوا کالج میں داخل ہوا۔
گارڈز بندوقیں پکڑے اس کے پیچھے آ رہے تھے اور ہر کوئی اس کو ستائشی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
پروفیسر صاحب لیکچر لے رہے تھے جب سالار اپنے گارڈز کے ساتھ اندر آیا اور سٹوڈینٹس پر نظر دوڑانے لگا۔
"کیا چاہیے آپ کو مسٹر؟"
پروفیسر نے پوچھنا چاہا لیکن سالار انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتا جنت کے پاس آیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے لے جانے لگا۔
"رکیں مسٹر کہاں لے کر جا رہے ہیں آپ اسے؟"
پروفیسر نے سالار کو روکنا چاہا تو ایک گارڈ نے اپنی بندوق پروفیسر کی کن پٹی پر رکھ دی۔یہ دیکھ کر سب طالب علم سہم گئے تھے۔
"سسس۔۔۔۔سالار۔۔۔۔"
جنت نے سہم کر سالار کو پکارا جو بس اسے غصے سے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ کے جا رہا تھا ایک خالی کلاس روم دیکھ کر سالار وہاں آیا اور جنت کو دیوار کے ساتھ لگا کر اسے گھورنے لگا۔
"صرف ہاں یا نہ میں جواب دینا مجھے کیا تم معراج سے شادی کرنے کے لیے مان گئی؟"
سالار نے اسکے خوف سے سفید پڑے چہرے کو غصے سے دیکھتے ہوئے دانت پیس کر سوال کیا۔
"سس۔۔۔سالار۔۔۔۔۔"
جنت خوف سے کانپتے ہوئے ہکلانے لگی تھی جبکہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔
"ہاں یا نہ؟"
سالار بہت اونچی آواز میں چلایا تو جنت نے خوف سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔سالار تو اسے جان سے ذیادہ چاہتا تھا اسکا یہ روپ جنت کیسے برداشت کرتی؟
"ہہہہ۔۔۔۔ہاں۔۔۔"
ایک خطرناک چیخ کے ساتھ سالار نے اپنے ہاتھ کا مکا بنا کر اسکے سر کے ساتھ موجود دیوار پر مارا ۔
"تم نے کہا تھا کہ سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتی ہو میرے لیے پوری دنیا سے لڑ سکتی ہو۔۔۔پھر کیوں جنت کیوں؟کیا جھوٹ تھی وہ محبت؟"
سالار کے دھاڑنے پر جنت سہم کر مزید رونے لگی ۔
"نہیں سالار بہت چاہتی ہوں میں آپکو۔۔۔۔لل۔۔۔۔ لیکن میں بابا کو نہیں کھو سکتی ۔۔۔۔ان کو دکھی نہیں کر سکتی وہ آپ میں سے یا خود میں سے ایک کو چننے کا کہہ رہے تھے۔۔۔"
"اور تم نے اپنے باپ کو چن لیا۔۔۔مجھے ٹھکرا دیا تم نے۔۔۔"
سالار کی درد سے بھری آواز پر وہ شرمندگی سے سر جھکا کر رونے لگی تو سالار نے اسکا منہ اپنے ہاتھ میں دبوچا۔
"کان کھول کر سن لو جنت شایان شاہ تم صرف اور صرف سالار ملک کی ہو تمہیں مجھے چننا ہو گا یاد رکھنا۔۔"
سالار نے اسکے منہ کے گرد اپنی پکڑ مظبوط کر کے کہا جبکہ جنت تو ڈر سے اپنی آنکھیں زور سے میچے کانپ رہی تھی۔
"کیونکہ میں سالار ملک ہوں جنت عثمان ملک کا بیٹا جب کچھ مانگنے سے نہیں ملتا تو اسے چھیننا میرے خون میں شامل ہے۔۔۔۔"
اپنے کان کے پاس سالار کی سرگوشی محسوس کر جنت کانپ اٹھی لیکن آنکھیں کھولنے پر خود کو اکیلا پا کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔وہ کیسے باپ یا سالار میں سے کسی ایک کو چنتی وہ دونوں کو ٹوٹ کر چاہتی تھی۔
❤️❤️❤️❤️
معراج اس دن گھر آتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ساری رات اس نے خادم کی باتوں پر غور کرتے گزاری اور اب صبح ہوتے ہی وہ سیدھا شایان کے پاس گیا جو اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا۔
"ارے معراج تم اٹھ گئے میرے پاس تمہارے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔ماشاءاللہ کل وانیا اور ہانیہ دونوں خیریت سے وجدان کو مل گئیں اور سکی بھی وقت گھر پہنچتی ہوں گی۔تمہاری بڑی مما اور جنت بھی وہیں گئے ہیں اور میں تمہارا ویٹ کر رہا تھا۔"
شایان نے مسکراتے ہوئے بتایا لیکن معراج بس خاموشی سے اپنے مٹھیاں بھینچے کھڑا تھا۔
"کیا ہوا ہے معراج؟"
"ککک۔۔۔۔کیا بڑی مما کے ببب ۔۔۔۔بہنوئی نے میرے مما۔۔۔ببب بابا کو مارا تھا؟"
معراج کے سوال پر شایان نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔آج تک اس نے اور وجدان نے معراج سے یہ سچائی چھپائی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ معراج ان سے بد گمان ہو۔
"معراج میری بات۔۔۔"
"ککک۔۔۔۔کیا آپ نے اور ممم۔۔۔۔ماموں نے انہیں معاف کر دیا تھا؟"
معراج نے شایان کی بات کاٹ کر پوچھا تو شایان اپنا سر شرمندگی سے جھکا گیا۔
"میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا معراج جانان نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اسے معاف نہیں کیا تو وہ اپنی جان لے لے گی مجھے سمجھ۔۔۔۔"
"اا۔۔۔۔اور آپ نے میرے مممم۔۔۔۔مما بابا کے قاتل کو جانے دیا۔۔۔۔ککک۔۔۔۔کس نے یہ حق دیا تھا آپ کو ۔۔۔۔۔جججج۔۔۔۔جس نے میرا سب ککک۔۔۔۔کچھ چھین لیا آآآ۔۔۔۔آپ نے اسے معاف کر دیا ۔۔۔۔"
معراج نے روتے ہوئے کہا تو شایان آگے بڑھا اور اسے اپنے گلے سے لگا کر دلاسہ دینا چاہا۔
" میری بات سمجھنے کی کوشش کرو معراج میں مجبور تھا بہت مجبور۔۔۔۔"
"مم ۔۔۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میں آپ کو اور ماموں ککک۔۔۔۔ کو کبھی معاف نہیں کرو گگگ۔۔۔۔گا کبھی نہیں۔۔۔"
معراج اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا اور شایان اپنی کرسی پر واپس بیٹھ کر اپنا سر ہاتھوں میں تھام چکا تھا۔اب وہ معراج کو کیسے سمجھاتا کہ سچ کیا تھا۔
❤️❤️❤️❤️
"زرش آنکھیں کھولو دیکھو کون آیا ہے۔۔۔"
جانان کے نرمی سے کہنے پر زرش نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنے سامنے اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھ کر وہ زاروقطار روتے ہوئے انھیں اپنے سینے سے لگا چکی تھی۔
"وانی میری جان۔۔۔"
زرش نے بہت محبت سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کر کے چوما لیکن وہ تو ابھی تک بس ایک خاموش بت بنے بیٹھی تھی اور اپنی بیٹی کی یہ حالت زرش بھی محسوس کر چکی تھی اس سے پہلے کہ وہ پریشان ہو کر کوئی سوال پوچھتی ہانیہ بول اٹھی۔
"یہ کیا مما آپ کو بس وانی کی پرواہ ہے میرے بغیر اداس نہیں ہوئی تھیں آپ؟"
اپنی بیٹی کی بات پر زرش نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اس کا بھی منہ چوما۔
"تم دونوں ہی تو میرا سب کچھ ہو میرے جینے کا سہارا۔۔۔اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتی ہوں میں تم دونوں کو۔۔۔"
زرش نے دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے بہت محبت سے کہا تھا۔
"چلو اب تو ہماری وانی واپس آگئی ہے نا اب تم بھی آرام کر کے جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔"
جانان نے زرش کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہدایت دی تو وہ خوشی سے مسکرا دی۔
"ہانیہ تم وانیا کو اس کے کمرے میں لے جاؤ تاکہ وہ آرام کر لے اور زرش تم بس اب بے فکر ہو کر سو جاؤ تمہاری دونوں بیٹیاں تمہارے پاس آ چکی ہیں۔"
زرش نے ہاں میں سر ہلایا اور ان دونوں کا ماتھا چوم کر انہیں وہاں سے جانے کی اجازت دی۔ہانیہ وانیا کو لے کر اپنے کمرے میں آ چکی تھی لیکن اسے اس کی بہت زیادہ فکر ستا رہی تھی۔
ہانیہ نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
"وانی میری جان کیا ہوا ہے کچھ تو کہو تم۔۔۔؟"
ہانیہ نے اس کا چہرہ تھامتے ہوئے بہت محبت سے پوچھا لیکن وانیا نے کوئی جواب نہیں دیا اور بس مردہ آنکھوں سے ہیں وغیرہ نقطے کو گھورتی رہی۔
ہانیہ کو اس کی فکر بہت زیادہ ستا رہی تھی وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کس طرح سے اپنی بہن کی کیفیت کو سمجھے۔
"وہ برا تھا وانی تم نے اسے مار کر کوئی گناہ نہیں کیا۔۔۔"
ہانیہ نے اسے سمجھایا تو وانیا نے ایک نظر ہانیہ کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو جہاں سے خون ہانیہ صاف کر چکی تھی لیکن وانیہ کو ابھی بھی اپنے ہاتھ راگا کے خون سے سنے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
"مار دیا۔۔۔۔میں نے مار دیا اسے ہانی۔۔۔۔جس سے محبت کی میں نے اسے مار دیا ہانی۔۔۔"
ہانیہ نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔
"نہیں میری جان ایسا مت کہو وہ شخص بہت برا تھا تمہارے جزبوں کے قابل نہیں تھا اس کے ساتھ وہی ہوا جس کے وہ لائق تھا۔"
ہانیہ نے اسے دلاسہ دیا لیکن وانیہ ابھی بھی سکتے کے عالم میں اپنے آپ کو قاتل کہتی جا رہی تھی۔ ہانیہ کو اس کی حد سے زیادہ پرواہ ہو رہی تھی
لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو جاتا وہ وانیہ کی زندگی کی تمام خوشیاں واپس لا کر رہے گی۔
❤️❤️❤️❤️
معراج شام ہونے تک سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا تھا۔اسکے زہن میں جو زہر گھل چکا تھا اس نے اپنی جڑیں بہت مظبوطی سے گاڑ لی تھیں۔بچپن سے ہی اسے جان سے زیادہ چاہنے والا شایان آج اسے حد سے زیادہ برا لگ رہا تھا اور اپنے سگے ماموں کا تو وہ چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
اس وقت اس میں اپنے پیاروں کو لے کر بدگمانی عروج پر تھی اور جب انسان اپنوں سے بدگمان ہو جائے تو غیر اسے اپنوں سے بھی بھلے معلوم ہوتے ہیں۔
معراج نے بہت سوچ کر خادم شفیق کے گھر کا رخ کیا اور گارڈ کو بتایا کہ وہ خادم سے ملنا چاہتا ہے۔کچھ دیر کے بعد ہی خادم نے اسے اپنے پاس بلایا۔
"اب کیوں آئے ہو تم؟ کوئی کمی رہتی تھی میری بچی کا دل دکھانے میں۔"
خادم نے معراج کو دیکھتے ہی کہا جو اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔
"مم۔۔۔میں ایمان سے نکاح کرنا چچچ۔۔۔چاہتا ہوں انکل۔۔۔۔ااا۔۔۔۔اگر آپ کی اجازت ہو تو۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"لیکن تم تو اپنے تایا کی بیٹی سے شادی۔۔۔"
"اا۔۔۔ان سے اب مم۔۔۔۔میرا کوئی تعلق نہیں میرا ککک۔۔۔۔کسی سے بھی کوئی تتت۔۔۔۔تعلق نہیں۔۔۔۔ممم۔۔۔۔میرا سب کچھ اب ایمان ہی ہے ۔۔۔۔"
معراج کی بات پر خادم مسکرایا اور آگے بڑھ کر معراج کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
"فکر مت کرو بیٹا اب تم میرے بیٹے ہو وعدہ کرتا ہوں تم سے کہ تمہاری ہر مشکل اب سے میری مشکل ہو گی تمہارے باپ کے قاتل کو سزا دلوانے میں تمہاری مدد کروں گا۔"
معراج نے اپنی سبز آنکھوں سے آنسو پونچھ کر چشمہ واپس آنکھوں پر لگایا اور مسکرا دیا۔
"ششش۔۔۔۔شکریہ انکل۔۔۔"
خادم نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"کل صبح ہی میں تمہارا اور ایمان کا نکاح کرواؤں گا اور اس کے بعد تم یہاں میرے پاس رہو گے میرے بیٹے بن کر۔"
معراج نے اس بات پر مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا۔
"جج۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی انکل۔۔۔"
خادم نے معراج کا کندھا تھپتھپایا اور شان سے مسکرا دیا۔سب ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا وہ چاہتا تھا۔